آنکھ کی بینائی سولر پینل کی مدد سے

آنکھ کی بینائی سولر پینل کی مدد سے
آنکھ کی پُتلی میں سولر پینل کے ذریعے بینائی بہال کرنے پر تجر بات کئیے جا رہے ہیں نیورو پروستھیٹک دنیا بھر میں ایک ابھرتی ہوئی سائنس فیلڈ ہے جس میں ایسے آلات کی تیاری پر کام کیا جا رہا ہے جو اعصابی نظام سے منسلک ہو کر غیر فعال انسانی اعضاء کو دوبارہ فعال کر سکتے ہیں۔اس کی ایک اہم مثال کوکلیئر امپلانٹ ہے، جسے عشروں سے سماعت کی بحالی کے لیے کان میں نصب کیا جا رہا ہے۔
اب اس فیلڈ میں مزید ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنس دان ایک ایسی ٹیکنالوجی پر کام کر رہے ہیں، جس میں انسانی آنکھ کے ریٹینا (پردہ چشم) میں سولر پینل لگا کر بینائی کو بحال کیا جا سکتا ہے۔اسی تصور سے متاثر ہو کر محققین ایسے آلات کی تیاری پر کام کر رہے ہیں، جن کی مدد سے نابینا یا عمر رسیدہ افراد میں بصارت کو بحال کیا جا سکے۔ مگر آنکھ کی ساخت اور حساسیت کے باعث اس عمل میں کئی پیچیدگیاں حائل تھیں۔یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز کے سائنس دان ڈاکٹر اوڈو رومر نے ان مسائل کا حل سولر پینل کی صورت میں نکالا ہے۔اس نئی تحقیق سے امید پیدا ہوئی ہے کہ جلد ہی نابینا اور بوڑھے افراد کی بصارت کو بحال کرنا ممکن ہوگا۔ڈاکٹر اوڈو رومر انجینئر ہیں اور اس سولر پینل ٹیکنالوجی پر تحقیق کر رہے ہیں۔انہوں نے جرمن خبر رساں ادارے ”ڈوئچے ویلے“ (ڈی ڈبلیو) سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انسانی آنکھ کے ریٹینا یا پردہ چشم میں کچھ خاص سیلز (خلیات) ہوتے ہیں جنہیں ’’فوٹو ریسیپٹرز“ کہا جاتا ہے۔ یہ فوٹو ریسپیٹرز بیرونی ماحول سے آنکھ میں پڑنے والی روشنی کو سگنلز میں تبدیل کر کے دماغ تک بھیجتے ہیں۔
ڈاکٹر رومر بتاتے ہیں کہ ’انہی ریسیپٹرز کی مدد سے ہم دن اور رات میں مختلف رنگوں یا اندھیرے کا احساس کرتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ بصارت کے زیادہ تر مسائل جیسے ریٹینس پگمینٹوسا اور عمر کے ساتھ بینائی کم ہونا وغیرہ ان فوٹو ریسیپٹرز میں خرابیوں کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔واضح رہے کہ ریٹینس پگمینٹوسا بصارت کی وہ بیماری ہے، جس میں آنکھ کے مرکز میں پردہ چشم متاثر ہونے سے مریض کو رات میں کچھ دکھائی نہیں دیتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کان میں سماعت کے لیے کوکلیئر امپلانٹ سرجری کئی عشروں سے کی جا رہی ہے۔ اسی طرز پر آنکھ میں خراب فوٹو ریسیپٹرز کو فعال کرنے کے لیے بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے پر سائنس دان ایک طویل عرصے سے تحقیق کر رہے ہیں۔ڈاکٹر رومر کے مطابق بائیو میڈیکل امپلانٹس لگانے کا ایک قابل عمل طریقہ یہ ہے کہ ریٹینا میں وولٹیج پلس بنانے کے لیے الیکٹروڈز استعمال کیے جائیں۔ لیکن اس کے لیے آنکھ میں وائرنگ کرنا ہوگی، جو ایک انتہائی پیچیدہ سرجری ہے۔اس نئی تحقیق سے متعلق بتاتے ہوئے ڈاکٹر رومر نے کہا کہ چھوٹے سائز کے سولر پینلز وائرنگ اور الیکٹروڈز کا ایک بہتر متبادل ہو سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’سولر پینل آنکھ کی پتلی کے ساتھ نصب کیے جائیں تو یہ سورج کی روشنی کو الیکٹرک پلس میں تبدیل کرتے ہیں۔ یہ پلسز دماغ تک پہنچ کر وہاں ”ویژول فیلڈ“ بناتی ہیں جس سے بصارت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ڈاکٹر رومر نے مزید کہا کہ یہ چھوٹے سولر پینلز پورٹیبل ہیں اور آنکھ میں ان کو لگانے کے لیے کیبلز یا وائرنگ کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ان کے مطابق اس تکنیک پر دنیا بھر میں کئی سائنس دان کام کر رہے ہیں مگر زیادہ تر محققین نے اپنے تجربات کے لیے سیلیکون سے بنے آلات استعمال کیے ہیں۔ جبکہ ان کی توجہ کا مرکز دیگر سیمی کنڈکٹر مرکبات جیسے گیلیئم آرسینائڈ اور گیلیئم انڈیم فاسفائیڈ پر ہے، جن کی خصوصیات کو باآسانی اور حسب ضرورت تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہا یہ مرکبات اپنی افادیت اور سستے ہونے کے باعث سولر پینل انڈسٹریز میں بڑے پیمانے پر استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ڈاکٹر رومر کے مطابق دماغ میں نیورونز کو متحرک کرنے کے لیے زیادہ وولیٹیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ان کی اس تحقیق سے سامنے آیا کہ گیلیئم آرسینائڈ کے تین سولر سیلز سے اتنا وولٹیج پیدا کیا جاسکتا ہے، جو دماغ تک سگنل یا پلس پہنچا سکے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اب تک ان کی ٹیم نے لیبارٹری میں دو سولر سیلز کو تقریباً ایک مربع سینٹی میٹر کے رقبے پر ایک دوسرے کے اوپر لگایا ہے، جس کے نتائج کافی حوصلہ افزا ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کہ اگلے مرحلے میں انہیں بصارت کے لیے درکار پکسل سائز میں لانا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی ان سولر پینلز کو باحفاظت الگ کرنے کے لیے مناسب تکنیک بھی استعمال کرنی ہوگی۔ڈاکٹر رومر کہتے ہیں کہ جب ان کی ٹیم دو سولر سیلز کے ساتھ ان تمام مراحل کو کامیابی سے عبور کرلے گی تو اس کے بعد پھر تین سولر سیلز جوڑنے پر کام کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ جانوروں پر مرحلہ وار ٹیسٹنگ کے بعد جب یہ ڈیوائس انسانوں کے لیے دستیاب ہو گی تو اس کا ممکنہ سائز دو مربع ملی میٹر تک ہوگا۔تکنیک میں حائل پیچیدگیاں ڈاکٹر رومر کے مطابق ابھی یہ تحقیق ابتدائی مراحل میں ہے۔ تین سولر سیلز پر مشتمل یہ ڈیوائس جب آنکھ میں نصب کی جائے گی تو غالب امکان ہے کہ سورج کی روشنی پڑنے سے شاید ریٹینا کے غیر فعال ریسیپٹرز دوبارہ کام شروع نہ کریں۔ لہذا ان افراد کو مخصوص گوگلز (عینک) استعمال کرنا ہوں گی، جو سورج کی روشنی کی شدت کو ضروری حد تک بڑھائیں گے تاکہ نیورونز کو متحرک کیا جا سکےڈاکٹر کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار پھر اس بات کو دہرائیں گے کہ یہ ٹیکنالوجی ابھی ابتدائی تحقیقی مراحل میں ہے اور اسے بصارت کے مسائل یا نابینا افراد کے لیے کلینیکلی دستیاب ہونے میں کئی سال لگیں گے۔

دنیا کی ترقی اور دلچسپ سائنسی حادثے

اپنا تبصرہ لکھیں