زمانہ بدل چکا ہے لیکن انڈین سنیما ابھی تک پرانے طور طریقوں سے نہیں نکلا: گلزار
انڈیا کے معروف اُردو شاعر گلزار کہتے ہیں کہ انڈین سنیما نے ابھی تک اپنے آپ کو پرانے طور طریقوں سے نہیں نکالا۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق شاعر گلزار کا کہنا تھا کہ انڈین فلموں میں ابھی تک پرانی روایتی کہانیاں ہیں جن میں ضرورت سے زیادہ ڈائیلاگ، گانے اور لڑائیاں شامل ہیں۔
بدھ کو گلزار نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’فلموں میں آوازیں اور الفاظ تبدیل ہو چکے ہیں لیکن کہانی سنانے کا انداز ابھی بھی ویسا ہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’بدقسمتی سے انڈین سنیما نے ابھی تک اپنے آپ کو پرانے طریقوں سے نہیں نکالا ہے۔ ہم ابھی بھی ’عالم آرا‘ اور ’ہنٹر والی‘ فلموں جیسے روایتی انداز میں کہانی دکھا رہے ہیں جس میں ضرورت سے زیادہ ڈائیلاگ، گانے، لڑائی، پکڑ دھکڑ اور مزید بھی بہت کچھ ہے۔‘
گلزار کے مطابق جدید ترین ٹیکنالوجی کے باعث فلموں کے مناظر بہت جدید ہوگئے ہیں اور اب سپیشل افیکٹس، گرین سکرین اور ساؤنڈ افیکٹس کا زمانہ ہے۔
انہوں نے انڈین سنیما میں بائیوپِکس بنانے کے ٹرینڈ کے بارے میں بھی تنبیہ کی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بائیوپِک ضرور بنائیں لیکن کہانیوں کے ساتھ بالکل بھی چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔‘
معروف شاعر نے اپنے کیریئر کا آغاز 1960 کے عشرے میں بطور نغمہ نگار کیا اور انہوں نے ’کابلی والا‘، ’باندنی‘، ’آشیرواد‘، اور ’خاموشی‘، جیسی فلموں کے گانے لکھے۔
گلزار نے سات دہائیوں پر مشتمل اپنے کیریئر میں فلموں کے لیے ڈائیلاگ اور سکپرٹ بھی لکھے۔
انہوں نے ’کوشش‘، ’پریچے‘، ’آندھی‘، ’انگور‘، ’ماچس‘، اور ’ہُو تُو تُو‘ جیسی کامیاب فلموں کی ہدایت کاری بھی کی